تازہ ترین

عمران خان کی ناجائز گرفتاری کے بعد پارٹی میں کیا کیا تبدیلی آئی؟

گزشتہ سال 5 اگست 2023 کے بعد پاکستان کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی جب ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان کو ان کی رہائشگاہ زمان پارک لاہور سے ناجائز گرفتار کرلیا گیا۔ جس کی منصوبہ بندی اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ جعلی حکومت نے کی۔

عمران خان کی یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب جعلی توشہ خانہ فوجداری مقدمے میں اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج ہمایوں دلاور نے بانی پی ٹی آئی کو 3 سال قید کی سزا سنائی اور اس کے فوراً بعد عمران خان کو لاہور سے گرفتار کرلیا گیا۔ ابتدا میں خان کو اٹک جیل میں قید کیا گیا اور پھر بعدازاں انہیں عدالتی احکمات پر اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کردیا گیا۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی

جعلی 9 مئی منصوبہ بندی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر رہنما اسٹیبلشمنٹ کے ناجائز ظلم ستم کی وجہ سے پارٹی چھوڑ چکے تھے یا روپوشی اختیار کرلی تھی، پھر جب عمران خان کی گرفتاری ہوئی تو اس کے بعد پارٹی پر جاری کریک ڈاؤن عروج پر پہنچ گیا۔ اب بانی پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے لیکن جعلی حکومت اور آرمی اسٹیبلشمنٹ نے عدالتی حکم کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کو آج تک کوئی موثر احتجاج یا جلسہ کرنے کے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کیوں کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے خوفزدہ ہے.

پارٹی کی تنظیم نو

‎عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کے چئیرمین کو تبدیل کیا گیا اور بیرسٹر گوہر علی خان کو بطور چئیرمین نامزد کیا گیا، اس دوران تحریک انصاف نے دو مرتبہ انٹرا پارٹی الیکشن بھی کروائے جسے الیکشن کمیشن نے آج تک منظور نہیں کیا جس سے الیکشن کمیشن کی بد دیانتی صاف ظاہر ہے۔ پارٹی کو عمران خان کے بغیر انتخابی مہم چلانا پڑی اور ان کے بغیر ہی درپیش عدالتی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں بلے کے انتخابی نشان کے بغیر الیکشن لڑنا، الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے جیسے مشکل اور اہم فیصلے کیے گئے۔

انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم

پاکستان تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ ہر الیکشن میں ایک اہم اور پیچدہ مرحلہ رہا ہے لیکن اس بار کہانی مختلف تھی کیوں کہ پارٹی جس امیدوار کو ٹکٹ دیتی اس کو گھر سے خاندان سمیت اغواہ کر لیا جاتا، اس مسلے کو دیکھتے ہوۓ رواں برس ہونے والے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم وکلا، نظریاتی کارکنوں اور سابقہ ایم این ایز میں کوٹہ سسٹم کے ذریعے ہوئی۔ چونکہ عمران خان کو ٹکٹوں کی فہرست پہنچانے کی اجازت نہیں تھی اس لیے ٹکٹوں کی بیشتر تقسیم میں بھی پارٹی بانی چیئرمین کی مشاورت سے محروم رہی۔

پارٹی میں گروپ بندی

عمران خان کی گرفتاری کے بعد جہاں بیرسٹر گوہر علی کو چئیرمین پی ٹی آئی بنایا گیا وہیں کچھ ایسی قیادت بھی منظر عام پر آئی جو عمران خان کی موجودگی میں اتنی قابل ذکر تو نہیں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پارٹی ورکرز میں خاصی مقبولیت حاصل کر لی۔ ان میں شیر افضل مروت کا نام سر فہرست رہا۔ جبکہ شیخ وقاص اکرم، شعیب شاہین اور رؤف حسن نے خان کی گرفتاری کے بعد میڈیا میں پارٹی کا موقف موثر انداز میں پہنچانے کی کوشش کی۔

جہاں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی نئی قیادت ابھری وہیں پارٹی میں گروپ بندی بھی کھل کر سامنے آئی۔ ان گروپ بندیوں میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز جن میں شاندانہ گلزار، شیر افضل مروت، شہریار آفریدی اور جنید اکبر جیسے لوگ نمایاں تھے تو دوسری جانب شبلی فراز، عمر ایوب اور رؤف حسن کا شمار مخالف گروپ میں سمجھا جاتا ہے۔ مرکزی قیادت کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی پارٹی تقسیم نظر آئی جہاں علی امین گنڈا پور کو عمران خان کی حمایت تو حاصل ہے لیکن کچھ ایم پی ایز نظر انداز محسوس کررہے ہیں۔

جب اسٹیبلشمنٹ اور تمام ادارے عمران خان کو شکست دینے میں ناکام رہے تو انہوں نے خان کی اہلیہ اور بہنوں کے درمیان سیاسی سیاسی کشیدگی پیدا کرنے کی بھی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ تب ہی عمران خان نے علیمہ خان کو سیاست سے دور رہنے کا پیغام پہنچایا تو بشریٰ بی بی کی جانب سے جیل سے ایک جعلی انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا کہ عمران خان کے گھر سے سازشیں ہورہی ہیں۔ جب کے یہ بات حقیقت سے برعکس تھی.

آج بھی اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور تمام ادارے مل کر پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو شکست دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور اب اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر تحریک انصاف پر کریک ڈاؤن کا آغاز کر چکی ہے کیوں کے اب یہ جان چکے ہیں کے قاضی عیسیٰ کے جاتے ہی حکومت ختم جو جائے کی جو کہ پہلے مکمل فیل ہو چکی ہے.

سحرش نایاب
سحرش نایابhttps://truthsocial.pk/
سحرش بول نیوز کی سینئر رپورٹر ہیں، جو ماس کمیونیکیشن اور ٹیکنالوجیز میں مہارت رکھتی ہیں۔ اس سے پہلے وہ سماء، جیو، اور آج نیوز کے ساتھ کام کر چکی ہیں اور سیاسی خبروں اور معیشت کے عروج و زوال پر رپورٹنگ کر چکی ہیں۔ وہ اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ جب رپورٹنگ نہیں کر رہی ہوتیں، تو انہیں اکثر بلاگنگ، مطالعہ، اور نئی جگہوں کی سیر کرتے ہوئے پایا جا سکتا ہے۔